<goog_1246732963235>

<goog_1246732963235> ماہ رجب کی فضیلت اور اس کے اعمال <goog_1246732963235>
واضح رہے کہ ماہ رجب، شعبان اور رمضان بڑی عظمت اور فضیلت کے حامل ہیں اور بہت
سی روایات میں ان کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ جیساکہ حضرت محمد  کا ارشاد پاک ہے کہ
ماہ رجب خداکے نزدیک بہت زیادہ بزرگی کا حامل ہے۔ کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت
میں اس کا ہم پلہ نہیں اور اس مہینے میں کافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام
ہے۔آگاہ رہو رجب خدا کا مہینہ ہے شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا
مہینہ ہے۔ رجب میں ایک روزہ رکھنے والے کو خدا کی عظیم خوشنودی حاصل ہوتی ہے‘
غضب الہی اس سے دور ہوجاتا ہے‘ اور جہنم کے دروازوں میں سے ایک دروازہ اس پر
بند ہوجاتا ہے۔ امام موسٰی کاظم (ع)فرماتے ہیں کہ ماہ رجب میں ایک روزہ رکھنے
سے جہنم کی آگ ایک سال کی مسافت تک دور ہوجاتی ہے اورجو شخص اس ماہ میں تین دن
کے روزے رکھے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ نیز حضرت فرماتے ہیں کہ رجب
بہشت میں ایک نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے
اور جو شخص اس ماہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو وہ اس نہر سے سیراب ہوگا۔امام
جعفر صادق (ع)سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم  نے فرمایا: کہ رجب میری امت کے لیے
استغفار کامہینہ ہے۔ پس اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ طلب مغفرت کرو کہ خدا بہت
بخشنے والا اور مہربان ہے۔ رجب کو اصبّ بھی کہاجاتا ہے کیونکہ اس ماہ میں میری
امت پر خدا کی رحمت بہت زیادہ برستی ہے۔ پس اس ماہ میں بہ کثرت کہا
کرو:<goog_1246732963235>
اَسْتَغْفِرُ الله وَ اَسْئَلُہُ التَّوْبَةَ <goog_1246732963235>
” میں خدا سے بخشش چاہتا ہوں اور توبہ کی توفیق مانگتا ہوں“<goog_1246732963235>
<goog_1246732963235> ابن بابویہ نے معتبر سند کے ساتھ سالم سے روایت کی ہے کہ
انہوں نے کہا: میں اوخر رجب میں امام جعفر صادق (ع)کی خدمت میں حاضر ہوا تو
حضرت نے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا کہ اس مہینے میں روزہ رکھا ہے؟ میں نے عرض
کیا فرزند رسول ! والله نہیں! تب فرمایا کہ تم اس قدر ثواب سے محروم رہے ہوکہ
جسکی مقدارسوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا کیونکہ یہ مہینہ ہے جسکی فضیلت تمام
مہینوں سے زیادہ اور حرمت عظیم ہے اور خدا نے اس میں روزہ رکھنے والے کا احترام
اپنے اوپرلازم کیا ہے۔ میں نے عرض کیا اے فرزند رسول ! اگرمیں اسکے باقی ماندہ
دنوں میں روزہ رکھوں توکیا مجھے وہ ثواب مل جائیگا؟آپ نے فرمایا: اے سالم! جو
شخص آخر رجب میں ایک روزہ رکھے تو خدا اسکو موت کی سختیوں اور اس کے بعدکی
ہولناکی اورعذاب قبر سے محفوظ رکھے گا۔جوشخص آخر ماہ میں دوروزے رکھے وہ پل
صراط سے آسانی کے ساتھ گزرجائے گا اور جو آخررجب میں تین روزے رکھے اسے قیامت
میں سخت ترین خوف‘تنگی اورہولناکی سے محفوظ رکھا جائے گا اور اس کوجہنم کی آگ
سے آزادی کاپروانہ عطا ہوگا۔واضح ہوکہ ماہ رجب میں روزہ رکھنے کی فضیلت بہت
زیادہ ہے جیساکہ روایت ہوئی ہے اگر کوئی شخص روزہ نہ رکھ سکتاہو وہ ہرروز سو
مرتبہ یہ تسبیحات پڑھے تو اس کو روزہ رکھنے کاثواب حاصل ہوجائے گا۔
سُبْحانَ الْاِلہِ الْجَلِیلِ سُبْحانَ مَنْ لاَ یَنْبَغِی التَّسْبِیحُ إِلاَّ
لَہُ سُبْحانَ الْاَعَزِّ الْاَکْرَمِ سُبْحانَ مَنْ <goog_1246732963235>
پاک ہے جو معبود بڑی شان والا ہے پاک ہے وہ کہ جس کے سوا کوئی لائق تسبیح نہیں
پاک ہے وہ جو بڑا عزت والا اور بزرگی والا ہے پاک ہے وہ
جولباس<goog_1246732963235>
لَبِسَ الْعِزَّ وَھُوَ لَہُ أَھْلٌ ۔ <goog_1246732963235>
عزت میں ملبوس ہے اور وہی اس کا اہل ہے۔ <goog_1246732963235> .:: دعـــــای
مــــــاه رجـــــــب ::. <goog_1246732963235>
يا مَنْ اَرْجُوهُ لِكُلِّ خَيْرٍ وَآمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ كُلِّ شَرٍّ يا مَنْ
يُعْطِى الْكَثيرَ بِالْقَليلِ يا مَنْ يُعْطى مَنْ سَئَلَهُ يا مَنْ يُعْطى
مَنْ لَمْ يَسْئَلْهُ وَمَنْ لَمْ يَعْرِفْهُ تَحَنُّناً مِنْهُ وَرَحْمَةً
اَعْطِنى بِمَسْئَلَتى اِيّاكَ جَميعَ خَيْرِ الدُّنْيا وَجَميعَ خَيْرِ
الاْخِرَةِ وَاصْرِفْ عَنّى بِمَسْئَلَتى اِيّاكَ جَميعَ شَرِّ الدُّنْيا
وَشَرِّ الاْخِرَةِ فَاِنَّهُ غَيْرُ مَنْقُوصٍ ما اَعْطَيْتَ وَزِدْنى مِنْ
فَضْلِكَ يا كَريمُ <goog_1246732963235> يا ذَاالْجَلالِ وَالاِْكْرامِ يا
ذَاالنَّعْماَّءِ وَالْجُودِ يا ذَاالْمَنِّ وَالطَّوْلِ حَرِّمْ شَيْبَتى
عَلَى النّارِ <goog_1246732963235>

  آخری تازہ کاری بوقت ہفتہ, 27 جون 2009 19:20
<goog_1246732963235>    <goog_1246732963235>   تاریخ حضرت علی علیہ
السّلام<goog_1246732963235>
<goog_1246732963235> [image: پی ڈی ایف] <goog_1246732963235>  [image:
چھاپیے] <goog_1246732963235>  [image: ای میل] <goog_1246732963235>
<goog_1246732963235>
<goog_1246732963235>
<goog_1246732963235>


<goog_1246732963235>حضرت علی علیہ السّلامنامپیغمبر اسلام  (ص) نے   آپ کا
نام  اللہ کے نام پر علی رکھا    ۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر
اسلام  (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔القابآپ کے
مشہور القاب  امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار،
نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔کنیت حضرت علی علیہ السّلام  کی مشہور کنیت  ابو
الحسن و ابو تراب ہین۔والدینحضرت علی (ع) ھاشمی خاندان کے وه پھلے فرزند ھیں جن
کے والد اور و الده دونوں ھاشمی ھیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن
ھاشم ھیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ھاشم ھیں ۔  ھاشمی خاندان قبیل ہ قریش میں
اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشھور و معروف تھے ۔جواں مردی
، دلیری ، شجاعت اور بھت سے فضائل بنی ھاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل
حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ولادتجت حضرت علی (ع) کی
ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس ائیں اور آپنے جسم کو اس
کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف
سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، آپنے جد ابراھیم (ع)
کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ھوں ۔پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ
جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں
موجود ھے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔ابھی ایک لمحہ بھی نھیں گزرا
تھا که کعبہ کی جنوبی مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی
نظروں کے سامنے شگافته ھوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ھوئیں اور دیوار
دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں
اللہ کی مھمان رھیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ھوئی ۔
ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باھر آنا چاھا تو دیوار دو باره
شگافتہ ھوئی، آپ کعبه سے باھر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ
پیغام سنا ھے که اس بچے کا ” نام علی “ رکھنا “ ۔بچپن  ا ور  تربیتحضرت علی (ع)
تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس  رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے
پاس آگئے۔ کیون کہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت  مکہ میں بھت سخت قحط پڑا ۔جس
کی وجہ سے  رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا
کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے آپنے دوسرے  چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے
کیا کہ ھم میں سے ھر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت آپنے ذمہ لے لے
تاکہ ان کی مشکل آسان ھو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی
(ع) کی کفالت آپنے ذمہ لے لی ۔حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی
کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد
مصطفےٰ کے زیر نظر ہونے لگی ۔ ا ٓ پ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا
وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا.  کچھ تو حضرت علی
(ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض  تربیت ،
چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب
پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی ک یا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائ ۔    آپ
ھمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رھتے تھے،  یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شھر سے
باھر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے
تھے<http://www.fazael.com/>

--~--~---------~--~----~------------~-------~--~----~
You received this message because you are subscribed to the Google Groups 
"shiagroup" group.
To post to this group, send email to shiagroup@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to 
shiagroup+unsubscr...@googlegroups.com
For more options, visit this group at 
http://groups.google.com/group/shiagroup?hl=en
-~----------~----~----~----~------~----~------~--~---

Reply via email to