*حافظ شیرازی* حافظ محمد شیرازی کا نام محمد ،لقب شمس الدین اور تخلص حافظ تھا ۔ حافظ نے خود اپنا نام یوں تحریر کیا ہے : محمد بن المقلب بہ شمس الحافظ الشیرازی ۔ حافظ کے سال ولادت کے بارے میں محققین کا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ انسائکلو پیڈیا آف اسلام میں تحریر ہے کہ حافظ آٹھویں صدی کے آغاز میں پیدا ہوۓ ۔ آقای نفیسی نے حافظ کا سال پپیدائش 726 ھجری سے 729 ھجری کے درمیان قرار دیا ہے ۔ مختلف شہادتوں کی بنیاد پر حافظ کا سال ولادت 726 ھجری مانا جاتا ہے ۔ حافظ شیرازی کا ایک بیٹا 764 ھجری میں فوت ہوا ۔ اس وقت حافظ کی عمر 37 سال تھی ۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حافظ کا سال ولادت 726 ھجری ہے ۔ اس طرح حافظ کا سال وفات 792 ھجری تحریر کیا گیا ہے ۔ اس طرح وفات کے وقت حافظ کی عمر 65 سال تھی ۔ حافظ کے دادا کا لقب غیاث الدین اور باپ کا لقب بعض تذکرہ نگاروں نے بہاءلدین اور بعض نے کمال لدین تحریر کیا ہے ۔
عبدالنبی نے "" میخانہ عبدالنبی "" میں لکھا ہے کہ حافظ کا والد اصفہان میں رہتا تھا ۔ بعد میں اپنا وطن چھوڑ کر تجارت کی غرض سے اہل و عیال کے ساتھ شیراز آن بسا ۔ حافظ کی والدہ کازرونی تھی اور شیراز میں دروازہ کازرون میں رہتی تھی۔ والد کی وفات پر خواجہ کی ماں اور دو بھائی باقی رہ گۓ ۔ بھائیوں میں حافظ سب سے چھوٹے تھے ۔ ان کے بڑے بھائی خواجہ خلیل عادل 775 ھجری میں وفات پا گۓ جبکہ دوسرا بھائی ماں اور بھائی کو تنہا چھوڑ گیا ۔ حافظ خمیر گیری کرکے روزی کماتا اور فرصت کے وقت قریبی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا ۔ انہوں نے بعد میں شیراز کے نامور اساتذہ سے متداولہ علوم حاصل کیے اور قرآن مجید حفظ کیا اور اسی نسبت سے حافظ تخلص اپنایا ۔ آپ نے الہیات ، تفسیر ،فقہ اور حکمت کا مطالعہ کیا ۔ علم ہندسہ اور موسیقی سے بھی آپ کو بہت لگاؤ تھا ۔ آپ کے معاصر اور ہم درس نے آپ کو مولانا الاعظم ، استاد تحاریرالادباء اور فخرالعلماء کے ناموں سے یاد کیا ہے ۔ حافظ شیرازی کی زندگی کا زمانہ 726 سے 792 ہجری شمار کیا جاتا ہے ۔ یہ ایران میں جنگ و جدال اور ناآرامی کا زمانہ تھا ۔ تیموری حملوں کے نتیجے میں ایران کی بستیاں تباہ و برباد ہو گئیں ۔ اس کے باوجود علماء اور شعراء علمی اور عرفانی محفلیں برقرار رکھتے تھے ۔ حافظ نے شیخ مجدالدین ، شیخ بہاؤالدین ، سید شریف جرجانی اور شمس الدین عبداللہ شیرازی سے استفادہ کیا ۔ انہیں شیراز سے بے حد محبت تھی اسی لۓ انہوں نے مصلی اور رکن آباد سے دوری اختیار نہ کی ۔ اپنی پوری زندگی میں یزد اور ہرمز کی جانب دو مختصر سفر کیے جو ان کے لۓ خوشگوار نہ تھے ۔ دیوان حافظ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کے اہل وعیال بھی تھے جن کی رفاقت میں وہ اپنے دکھ بھول جایا کرتے تھے ۔ ان کا ایک بیٹا ان کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا مگر اس کے باوجود ان کے دل سے اپنے گھر اور اہل خانہ کی محبت کم نہ ہوئی۔ حافظ دربار سے بھی وابستہ رہے ۔ ابو اسحاق نے 743 ھجری میں شیراز پر حکومت قائم کر لی ۔ وہ حافظ سے ہمیشہ مربیانہ سلوک کرتا تھا اور بہت مہربانی سے پیش آتا تھا ۔ ایران کے بادشاہوں کے علاوہ برصغیر کے سلاطین بھی حافظ کے کلام کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ محمود شاہ دکنی نے حافظ شیرازی کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی حتی محمود شاہ نے اس کے لۓ زاد راہ بھی ارسال کیا مگر شیراز کی محبت آڑے آئی اور سفر کی صعوبتوں سے فرار کے لۓ حافظ نے وہاں حانے کا ارادہ ترک کر دیا اور محمود شاہ کی خدمت میں ایک غزل لکھ کر ارسال کر دی ۔ حافظ نے 791 ھجری میں شیراز کے مقام پر وفات پائی اور مصلی کے مقام پر دفن ہوۓ ۔ ان کا مزار ہر خاص و عام کی زیارت گاہ ہے حافظ کی زندہ جاوید تصنیف اس کا دیوان ہے جو غزلیات ، قصائد ،قطعات اور رباعیوں پر مشتمل ہے ۔ یہ دیوان انہوں نے خود مرتب کیا بلکہ ان کے معاصر محمد گل اندام نے ترتیب دیا ۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے محمد گل اندام کا مرتب کردہ دیوان بھی آج موجود نہیں ۔ اس کے علاوہ حافظ نے تفسیر قرآن بھی تحریر کی۔ محمد گل اندام کے بقول حافظ شیرازی نے کشاف اور مصباح کے حواشی بھی تحریر کی حافظ کی ایک غزل معہ انگریزی ترجمہ آن پیک نامور که رسید از دیار دوستـ آورد حرز جان ز خط مشکـبار دوسـت خوش میدهد نشان جلال و جـمال یار خوش میکند حکایت عز و وقار دوست دل دادمش به مژده و خجلت هـمیبرم زین نقد قلب خویش که کردم نثار دوست شـکر خدا کـه از مدد بخـت کارساز بر حسب آرزوست همه کار و بار دوست سیر سپـهر و دور قمر را چه اخـتیار در گردشـند بر حسب اختیار دوسـت گر باد فتنه هر دو جهان را به هـم زند ما و چراغ چشم و ره انتـظار دوسـت کحل الجواهری به من آر ای نسیم صبح زان خاک نیکبخت که شد رهگذار دوست ماییم و آستانـه عـشـق و سر نیاز تا خواب خوش که را برد اندر کنار دوست دشمن به قصد حافظ اگر دم زند چه باک منت خدای را که نیم شرمسار دوست The messenger who arrived from the land of my friend Brought a charm, fragrant, and in the hand of my friend. Wonderfully displayed her beauty and her glory With the tales of noble and regal stand of my friend. My heart took in the good news, though coy and shy My heart readily will serve every command of my friend. Thank heavens for the help of smiling fate Runs smooth every errand of my friend. The revolving orbs and the firmament have no say They move at every wish and demand of my friend. If the winds of calamity blow in both worlds My eyes upon the composure, calm & bland of my friend. Bring me a rare jewel, O gentle morning breeze Since you have blown over the very sand of my friend. We stand in Love's land, while our needs grand Sweet dreams never brought a hair strand of my friend. Hafiz, fear no foes who reprimand my friend Thank God, I am not ashamed of me and of my friend -- *PLEASE JOIN * *http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM*<http://groups.google.com/group/BAZMeQALAM> -- You received this message because you are subscribed to the Google Groups "shiagroup" group. To post to this group, send email to shiagr...@googlegroups.com. To unsubscribe from this group, send email to shiagroup+unsubscr...@googlegroups.com. For more options, visit this group at http://groups.google.com/group/shiagroup?hl=en.